روحانی اسباق

 روحانی طالب علم جب اسباق پڑھتا ہے اور مشق کرتا ہے تو ابتداء میں غنودگی طاری ہوتی ہے۔ غنودگی سے مراد یہ ہے کہ طالب علم جب آنکھیں بند کر کے بیٹھتا ہے یعنی مراقبہ کرتا ہے تو اس کے اوپر سونے، جاگنے کی درمیانی کیفیت کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ جب دماغ یکسو ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر سونے، جاگنے کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ طالب علم کچھ دیکھتا ہے اور کچھ نہیں دیکھتا، کچھ سمجھتا ہے اور کچھ نہیں سمجھتا۔ کچھ یاد رہتا ہے کچھ یاد نہیں رہتا۔ لیکن وہ جو کچھ دیکھتا یا سنتا ہے اس کے دباؤ سے طالب علم کے اوپر غنودگی طاری ہو جاتی ہے، جس کو ہم سونے جاگنے کی کیفیت کہتے ہیں۔


مشق کرتے کرتے شعور کی مزاحمت کم ہوتی رہتی ہے۔ جب شعور کی مزاحمت کم ہوتی ہے تو طالب علم ’’ورود‘‘ (سونے جاگنے کی کیفیت) میں داخل ہو جاتا ہے۔ ’’ورود‘‘ میں جب شعوری مزاحمت کم ہوتی ہے تو سکت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ صلاحیت اور سکت میں اضافہ کے بعد روحانی طالب علم تیسری کلاس (منزل) میں داخل ہو جاتا ہے، اس منزل کو یا اس مقام کو کشف کہتے ہیں

کشف کے بعد چوتھی منزل الہام ہے، پانچویں منزل معانقہ ہے اور چھٹی منزل مشاہدہ ہے۔ مشاہدہ کے بعد سیر ہے اور سیر کے بعد فتح کا مقام ہے۔ فتح کے بعد انسلاخ ہے


روحانیت میں جتنے اسباق پڑھائے جاتے ہیں یا مشقیں کرائی جاتی ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ انسان خالی الذہن ہو جائے۔ جیسے جیسے روحانی طالب علم یکسو ہوتا ہے اسی مناسبت سے وہ لاشعوری زندگی سے واقف ہوتا رہتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ غیب کے نقوش معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے


Shahzad shafiq 

03317863313 

Comments

Popular posts from this blog

بڑی انت جی صفائی

Blood test

Need man