کولیسٹرول
*١۔کولیسٹرول کیاہے؟*
*٢۔کولیسٹرول کی ضرورت*
*٣۔کولیسٹرول کی زیادتی اور نقصانات*
*٤۔کولیسٹرول کہاں سے آتا ہے؟*
*٥۔کولیسٹرول کی حقیقت*
*٦۔اصولِ علاج*
کولیسٹرول ایک سفید مومی،چربی نما مرکب ہے، جو انسانی جسم کے ہر خلیے میں پایا جاتا ہے۔
*٢۔کولیسٹرول کی ضرورت*
کولیسٹرول سے ہر کوئی خائف نظر آتا ہے۔حیوانی اغذیہ،خاص طور پر دیسی گھی اور بالائی وغیرہ سے پر ہیز ایک رواج کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔حالانکہ کسی بھی قسم کی غذا کی زیادتی یا کمی انسان کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔جس طرح دودھ،گھی گوشت، انڈے مکھن ، پنیر ، بالائی وغیرہ ہماری صحت اور توانائی کے لئے ضروری ہیں۔ اسی طرح دالیں اور سبزیاں بھی اپنی اپنی جگہ بہت اہم ہیں۔یہ تمام معدنی،نباتی اور حیوانی اغذیہ قوت و صحت وشباب کی شاہکار ہیں لیکن جب ان کا استعمال بے جا طور پر اور ضرورت سے زیادہ کیا جاتا ہے تو یہی نقصان دینا شروع کر دیتی ہیں۔قسم قسم کی امراض بسیار خوری ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ غذائی معاملہ میں اعتدال کو اپنانا یقینا صحت کا ضامن ہے۔کولیسٹرول نہ ہوتو انسان کی موت یقینی ہو جاتی ہے کیونکہ یہی مادہ ہمارے جسم کے خلیات کو توانائی اور اس کے بیرونی پرت کو لچک عطا کرتا ہے۔جسمانی ہارمون، اعصاب پر موجود جھلی، وٹامن ڈی،پتے کا بائیل (Bile)جوانہضام کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے،اور وہ مادہ جو آپ کی جلد کو نرم رکھتا ہےیہ سب کولیسٹرول ہی سے بنتے ہیں۔علاوہ ازیں،دماغ کا ایک بڑا حصہ کولیسٹرول پر مشتمل ہے ۔کولیسٹرول جسم کے لئے بہت ضروری ہے۔کولیسٹرول کا لیول انسانی جسم میں 160 ملی گرام سے کم نہیں ہونا چاہئے۔کم کولیسٹرول والے لوگ خودکشی کی طرف زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔
*٣۔کولیسٹرول کی زیادتی اور نقصانات*
اگر کولیسٹرول 200 ملی گرام سے زائد ہے تو جسم اور دل میں امراض پیدا کر سکتا ہے۔یہ انسان کو ہلاک تک بھی کر سکتا۔خون میں اس کی کثرت شریانوں کو تنگ کر دیتی ہے۔رگوں کی دیواروں میں جڑے ہوۓ خلیات کولیسٹرول سے پر ہوکر بھاری جھاگ دارخلیات میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور پھر یہی خلیات رگوں کے اندر چکنائی کے پرتوں کی صورت میں جمتے چلے جاتے ہیں۔اس عمل سے رگوں کے اندرونی استر کونقصان پہنچتا ہے۔ان میں غلیظ اور گاڑھا سا کیچڑ جمع ہو جاتا ہے،جو دراصل خلیات،خلیاتی ملبے اور چربی کا آمیزہ ہوتا ہے۔اس کی وجہ سے خون کی روانی ختم ہونے لگتی ہے۔جس کے نتیجے میں خون اور آکسیجن کی کمی واقع ہو جاتی ہے اور ہارٹ اٹیک اور فالج تک کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔خون میں بہاؤ کی رکاوٹ سے ٹشوز میں زخم بھی ہو سکتے ہیں اور ٹشوز مر بھی سکتے ہیں۔فوری موت تک ہوسکتی ہے۔آنت کے سرطان کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے۔سماعت متاثر ہوسکتی ہے۔پتے میں پتھری کا باعث بن سکتا ہے۔کولیسٹرول شریانوں کی دیواروں میں اکٹھا ہو کر شریانوں کو بند کر سکتا ہے۔اسی طرح کم کولیسٹرول والے لوگ بھی صحت و شباب کی بہاروں سے محروم رہتے ہیں۔
*٤۔کولیسٹرول کہاں سے آتا ہے؟*
کھانے کی اشیاء میں پایا جانے والا کولیسٹرول جسم کا حصہ بنتا رہتا ہے۔حیوانی اغذیہ میں وافر مقدار میں کولیسٹرول پایا جا تا ہے، جیسے گوشت،انڈے،مکھن وغیرہ۔انڈے کی زردی کولیسٹرول سے بھر پور ہوتی ہے۔حیوانی کولیسٹرول بہت آسانی سے انسانی جسم میں ہضم ہوکر انرجی میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ کولیسٹرول انسانی جسم میں بھی تیار ہوتا ہے۔زیادہ تر لوگ جتنا کولیسٹرول اغذیہ سے حاصل کرتے ہیں، اس سے تین گنا جسم میں تیار ہوتا ہے۔
*کولیسٹرول کی حقیقت*
کولیسٹرول دراصل سودا ہی ہے۔دنیاۓ امراض کا ایک خوفناک مرض سرطان سودا ہی کی زیادتی سے لاحق ہوتا ہے۔امریکہ اور یورپ کے لوگ اور سائنسدان کولیسٹرول کے وجود سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ ان لوگوں کو ہر عمدہ غذا میں کولیسٹرول نظر آتا ہے۔اس وجہ سے یہ لوگ کولیسٹرول کی دہشت زدگی کے سبب اپنے اوپر خدا کی ہر نعمت کو حرام کیے ہوۓ ہیں۔کولیسٹرول سوداوی مزاج میں جنم لیتا ہے اور امراضِ قلب اور سرطان کے امراض کی پیدائش میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس سودا کو صفراء سے توڑ کر ہی کئی ایک خوفناک امراض کا کامیاب علاج کیا جاسکتاہے۔ہمارے ملک کے بڑے بڑے ڈاکٹرز جو دنیاۓ مغرب کی تھیوری کو حرف آخر خیال کرتے ہیں۔انہیں مغرب سے جو بات ملتی ہے،اس کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں۔یہی حال دیسی گھی کے بارے میں ہے۔نصف صدی قبل سے ڈاکٹرز حضرات بناسپتی گھی کی تاکید کرتے آۓ ہیں۔اب اس سے متنفر ہو کر کوکنگ آئل پر زور دیا جارہا ہے۔حالاں کہ کوکنگ آئل اگر مکئی اور سویا بین کا ہے تو وہ جسم میں سوداویت کو بڑھاۓ گا،جس سے کولیسٹرول بھی بڑھتا جاۓ گا۔کوکنگ آئل اگر مجبوری سے کھانا ہی پڑے تو سن فلاور کا یا پھر کنولہ کا یا زیتون کا ہوتو مفید ہے۔یادر ہے،خالص دیسی گھی کے استعمال سے کبھی شریانی سُدہ پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس نعمتِ رب جلیل سے شریانیں سخت ہوتی ہیں بلکہ یہ تو وہ نعمت ہے،جو ہزاروں ادویہ کے مقابلہ میں اکسیر کا حکم رکھتی ہے۔ہمارے بزرگ سیروں گھی پی جایا کرتے تھے لیکن ان کا ہارٹ فیل ہوتے نہیں دیکھا،نہ مرتے دم تک ان کے جسم تر و تازگی سے عاری ہوۓ۔البتہ جب سے ہم نے بناسپتی گھی کی آفت اپنے اوپر سوار کی،موجودہ نسل اپنی تاب و توانائی سے محروم ہو گئی ہے۔اب جدید میڈیکل سائنس کے حواری تھک ہار کر کوکنگ آئل کی طرف آ گئے ہیں۔نامناسب کوکنگ آئل کے استعمال سے ہر فرداور ہر گھر امراض کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ماڈرن طبقہ تو دیسی گھی کا نام سن کر ناک چڑھانے لگتا ہے کہ ہمیں تو ہمک(بدبو)آتی ہے۔حالاں کہ بناسپتی گھی کو دیسی گھی پر کوئی برتری حاصل نہیں۔پٹھان ہمیشہ دنبہ کا گوشت کھاتے ہیں۔وہ چربی میں گوشت پکا کر شوق سے کھاتے ہیں۔ وہاں دل کے امراض بہت کم ہیں۔اسی طرح پنجاب واحد خطہ تھا،جہاں دیسی گھی اور مکھن کھایا جاتا تھا اور تقسیم سے پہلے یہاں دل کا دورہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کے بعد بناسپتی گھی کا دور آیا تو کولیسٹرول وبا کی طرح بڑھتا چلا گیا۔اب کوکنگ آئل کا دور ہے۔اس کے باوجود لوگوں کاکولیسٹرول بڑھ رہا ہے اور امراضِ قلب بھی وبا کی صورت اختیار کر چکی ہیں۔دل کے دورہ سے مرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد انگلستان اور امریکہ میں ہے حالانکہ ان کا مکمل کھانا کوکنگ آٸل سے پکتا ہے۔اب وقت آ رہا ہے کہ ڈاکٹر لوگ بھی بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل پر دیسی گھی کو ترجیح دیا کریں گے۔بناسپتی گھی کو جمانے کے لئے جو کیمیاوی مرکبات ڈالے جاتے ہیں،وہ بھی دل کی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ہر سائنسدان انسان کو حیوان ناطق قرار دیتا ہے۔اسی بناء پر انسان کے لئے حیوانی اغذیہ ہی مناسب و مفید ہوسکتی ہیں۔دیسی گھی کے بارے میں یہ پراپیگنڈا کہ وہ شریانوں کے اندر جم کر ان کو تنگ کر دیتا ہے،جس سے دوران خون میں رکاوٹ پیش آتی ہے،حقائق کے خلاف ہے اور یہ واہمہ بالکل بے بنیاد ہے۔ دیسی گھی تو خارجی حرارت کا مقابلہ کرنے سے بھی قاصر ہے بھلا وہ داخلی حرارت کی موجودگی میں کیسے جم سکتا ہے؟البتہ اگر جسم میں سودا کی زیادتی کے سبب خشکی پیدا ہو جاۓ تو گھی سے اس کی کا کامیاب علاج کیا جا سکتا ہے اور کئی ایک امراض قلب خاص طور پر وجع القلب، اختلاج قلب،وغیرہ کا کامیاب تدارک کیا بھی گھی ہی سے کیا جا سکتا ہے۔گھی سے خون میں سلفر اور صفراء کے اجزاء کا انجذاب اور پیدائش ہوتی ہے۔یہی دونوں چیزیں چربیوں کو انرجی میں تبدیل کرنے کا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ خون میں تعفن کو روکنے کے لئے سلفر سے بہتر اور کوئی نعمت نہیں ہوسکتی۔جسم کو تیزابیت کے حملہ سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی دیسی گھی سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں۔یہی صفراء خون کولطیف بناتا ہے تا کہ وہ رگوں اور مجاری میں آسانی سے گزر سکے۔صفرا چکنی،روغنی،چربیلی اور شیریں اغذ یہ تحلیل کرنے میں مدد دیتا ہے۔اس کی موجودگی آنتوں میں سدے بننے نہیں دیتی۔اگر اس میں کمی واقع ہو جاٸے تو آنتوں میں شدے بن جاتے ہیں۔صفراء جسم کو الرجی، خارش اور پھوڑے پھنسیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔صفراء کی کمی ہی سے تجرُالمفاصل(جوڑوں کا پتھرا جانا)کی خطرناک مرض نمودار ہوتی ہے۔یہ بات واضح ہے کہ اکلیلی امراضِ قلب کا واحد سبب سودا(کولیسٹرول)ہےجسسے خون گاڑھا ہوجاتا ہے اور انتہائی خشکی سردی سے شریانیں تنگ ہو جاتی
ہیں۔اسی وجہ سے خون میں پھٹکیاں بن جاتی ہیں،جو خون کے مناسب بہاؤ میں دخل انداز ہوکر دل کےدورے و ہارٹ اٹیک کا سبب بنا کرتی ہیں۔اسی وجہ سے تسدید القلب بھی رونما ہوتی ہے۔جب کسی شریان میں سُدہ دمویہ کےسبب دل کے کسی عضلہ قلب کوخون کی مناسب مقدار نہیں ملتی تو وہ عضلۂ قلب خشک ہوکر موت کا شکار ہو جا تا ہے۔
*اصولِ علاج*
ان امراض کا علاج صفراء کی پیدائش کرنا ہے،جس سے خون کا گاڑھا پن ختم ہو جاتا ہے اور خون جسم کے ہر حصے میں رواں دواں ہو جاتا ہے۔جن لوگوں کے جگروغدد کا نظام جوہر تیار بھی کر رہا ہو اور ان کو جذب کرکے اپنے اپنے اعضاء کو سپلائی بھی کر رہا ہو۔ ساتھ ہی ساتھ فضلات کا استخراج بھی جاری ہوتو خون ، اعضاء ، غشاء اور خلیات میں اپنے اپنے اجزاء کا میزان درست رہے گا۔صحت و شباب کا بس یہی ایک راز ہے۔جگر وغدد کے افعال میں افراط و تفریط اور ضعف ہی سے خونی اجزاء میں خرابی اور کمی واقع ہوا کرتی ہے،جو امراض کو جنم دیتی ہے۔چکنائیوں کو صحت بخش انداز میں جسم کا حصہ بنانا جگر کا کام ہے۔جگر اگر درست ہے توان چکناٸیوں کو انرجی میں ضرور تبدیل کرلےگا۔لہٰذا محرک جگر و غدد ادویہ و اغذیہ کا استعمال کیاجاٸے۔
Comments
Post a Comment