ج

 یہ 2019 کی بات ہے پڑوسی ملک کی مشہور کافی چین کمپنی کا مالک سدھارتھ کافی مشکلات میں تھا. کمپنی کا خسارہ 7 سو کروڑ پر پہنچ گیا تھا. اور پھر کورونا شروع ہوگیا. سدھارتھ کو لگا اب تو سارے دروازے ہی بند ہوگئے ہیں. اب واپسی ممکن ہی نہیں. اور اس نے خودکشی کر لی.


ملاویکہ کرشنا سدھارتھ کی بیگم تھی. اسے وراثت میں ایک خسارے کی شکار کمپنی مشکل حالات اور شوہر کی جدائی مل گئی. ملاویکہ نے لیکن خودکشی نہیں کی. اس نے کمپنی کی بھاگ دوڑ خود سنبھال لی. خسارے کے شکار اوٹ لٹس اور مشینیں بند کیں. نئے سرمایہ کاروں کو اس بڑی کمپنی میں سرمایہ کاری پر راضی کیا. نئے آوٹ لٹس اور آٹومیٹک کافی مشینیں لگائیں. ایک نیا سفر شروع کر دیا. 


آج وہ کمپنی جو 7 سو کروڑ خسارے میں تھی اس کی مالیت اب 17 سو کروڑ سے اوپر جا چکی ہے. اس کے 572 آوٹ لٹس اور تقریباً 36 سو آٹومیٹک کافی سپلائی مشینیں ملک بھر میں لگی ہیں. ان چند سالوں کا فرق کیا تھا.؟ یہ بس سوچ کا فرق ہے. ایک شخص کیلئے بند دروازہ اختتام کا پیغام تھا جبکہ دوسرے کیلئے دوسرے دروازے کھولنے کی سوچ تھی. 


لوگ خود کو نہیں مارتے ان کی سوچ ان کو مار دیتی ہے. آپ اگر آہستہ آہستہ جیتے جی مر رہے ہیں تو جیتے جی اپنی زندگی پر فاتحہ نہ پڑھیں. ایک بار دوسرا دروازہ ضرور ڈھونڈنے کی کوشش کریں. یہ آس پاس ہی ہوتا ہے نظر بس تب آتا ہے جب آپ اپنی پرانی فرسودہ سوچ کو مار دیں. 


ریاض علی خٹک

Comments

Popular posts from this blog

بڑی انت جی صفائی

Blood test

Need man