میڈیکل اور ہم

 فارما انڈسٹری ۶۰۰ بلین ڈالر سالانہ کماتی ہے۔ جتنے ہم بیمار رہیں، اتنے وہ صحت مند ہوتے ہیں۔ تو وہ ایسا کیونکر چاہیں گے کہ ہم ٹھیک ہوں؟ یہی وجہ ہے کہ سال ہا سال کولیسٹرول، بلڈ پریشر، ذیابیطس اور متعدد بیماریوں کی دوائیاں لے لے کے بھی کوئی ٹھیک نہیں ہو پاتا۔ 


اب تک ہم سنتے آئے ہیں مائنڈ باڈی کینکیشن۔ منفی سوچیں، اینگزائٹی، ڈیپریشن کیسے بالآخر کیسے بیماریوں کی صورت جسم پر اثرات ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ اسے دوسرے زاویے سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک انسان سالانہ ساٹھ پاؤنڈ شوگر استعمال کرتا ہے، دن کا زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتا ہے اور باقاعدہ ورزش نہیں کرتا، گھنٹوں کے حساب سے سکرین سے جڑا رہتا ہے چاہے کام کے سلسلے میں، چاہے تفریح کے نام پر۔ نتیجتا نیند پوری نہیں ہوتی، اٹینشن ڈیفیسٹ یعنی ارتکاز کی کمی، کام مکمل نہ ہو پانا، اینگزائٹی اور ڈیپریشن۔۔۔ گویا جسمانی صحت کا خیال نہ رکھنا ذہنی صحت پر اثر ڈالتا ہے، لیکن ہم اس بات کو ٹھیک سے سمجھ نہ پائے۔


کیوں نہ شوگر کم بہت کم کر کے ختم کر دی جائے، دن کا کچھ حصہ واک یا ورزش کے لئے مختص کیا جائے، سکرین کا استعمال کم کرنے کی شعوری کوشش کی جائے، بھرپور نیند لی جائے، اور یوں جسمانی صحت بہتر بنا کر ذہنی صحت پر مثبت اثر ڈالا جائے؟


زیرِ مطالعہ ہے ڈاکٹر رابن برزن کی کتاب State Change.

سترہ صفحے پڑھے ہیں ابھی، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ کچھ بہت خاص کتاب ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

بڑی انت جی صفائی

Blood test

Need man