ڈپریشن

 ڈیپریشن انسانوں میں اور خاص طور پر بلوغت کے وقت نوجوانوں اور خصوصاً لڑکوں میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے- پہلے اس کی تشخیص نہیں ہوتی تھی اور بچوں کو مار پیٹ کر یا ڈرا دھمکا کر انہیں معاشرتی نارمز کا پابند بنا دیا جاتا تھا، ان کی چھوٹی عمر میں شادی کر دی جاتی تھی جس سے انہیں زندگی میں فوکس مل جاتا تھا، ذمہ داریاں مل جاتی تھیں- اس کے علاوہ خاندانی رشتے پہلے زیادہ مضبوط تھے اور آپسی بات چیت پہلے زیادہ ہوتی تھی- بچے جو باتیں ماں باپ سے نہیں کر پاتے تھے وہ دادی یا نانی سے یا دوسرے بزرگوں سے نسبتاً زیادہ کھل کر پاتے تھے- اس کے علاوہ گلیوں میں کھیل کود سے بھی نوجوانوں کا سٹریس کم ہو جاتا تھا- کھیل کود اور ورزش سے ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو ڈیپریشن کو کم کرتے ہیں


اب سوشل میڈیا کی وجہ سے فیملی ممبر کی آپسی کمیونیکیشن کم ہو گئی ہے، زیادہ تر کمیونیکیشن سیل فون کے ذریعے ہوتی ہے- لیکن ہمارا دماغ ایسی کمیونیکیشن کرتے ہوئے ارتقاء پذیر نہیں ہوا- ذہنی صحت کے لیے فیملی ممبرز، یار دوست، بے معنی گفتگو (جسے انگریزی میں سمال ٹاک کہتے ہیں) اور ہنسی مذاق بہت ضروری ہے- جب یہ سب نہیں ہوتا اور ہم دوسروں کی برائیاں نہیں کر پاتے تو ہمارا فوکس اپنے اوپر زیادہ ہو جاتا ہے اور احساس محرومی زیادہ ہوتا ہے- کسی حد تک احساس محرومی بالکل نارمل ہے لیکن چونکہ سوشل کنکشنز اب کم ہو گئے ہیں اس لیے اس کے اخراج کے مواقع بھی اب کم ملتے ہیں- اس کے علاوہ سوشل میڈیا سے ہم دوسروں کے ڈیپریشن کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ہمیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ہمیں بھی ڈیپریشن ہے- یہ تصور ایک دفعہ جڑ پکڑ لے تو پھر گہرا ہوتا چلا جاتا ہے

Comments

Popular posts from this blog

بڑی انت جی صفائی

Blood test

Need man