کثرت جماع

 حصول لذت کی خاطر جماع کی کثرت سے ہونے والے امراض.


اگر مباشرت میں کثرت کی جائے یا کسی بھی طریقہ سے مادہ منویہ,کا ضیاع کیا جائے تو اس کا سب سے پہلا نزلا اعصاب پر پڑتا ہے.جو ایک نازک اور بیش بہا قدرتی عطیہ ہے اعصابی قوت  کے صرف ہونے کے بعد اس کی تلافی اور تجدید کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے لیکن تلافی اور تجدید کے لئے کافی عرصہ نہ ملنے کی وجہ سےاعصابی قوت کا زخیرہ صرف ہوکر ضعف اعصاب پیدا ہو جاتا ہے.جو تدریجاً پیدا ہوتا ہے.یعنی پہلے اعصاب اور پھر اعضائے رئیسہ ضعیف ہو جاتے ہیں.

جو شخص حظ نفسانی,عیش جسمانی اورعشرت فانی کی خاطر اپنے مادہ حیات کو ضائع کرتا ہے.وہ درحقیقت قدرت کے منشاء کے خلاف کرتا اور فطرت کے حقائق سےزورآزمائی کرتا ہے.جس کی پاداش میں اسکی عمر طبعی گھٹ جاتی ہے جلد بوڑھا ہوجاتا ہے۔نظام عصبانی خراب ہو جاتا ہے.اعضائے رئیسہ کمزور ہو جاتے ہیں.اور وہ فالج.لقوہ.دق.ذیابیطس وغیرہ جیسے مزمن امراض میں مبتلا ہو کر زندگی کی سچی مسرتوں اور قدرت کی بیش بہا نعمتوں سے محروم ہوجاتا ہے.

اللہ پاک کا قرآن پاک میں فرمان ہے کہ میاں بیوی کا ملنا نیک اولاد کا حصول نہ کہ شہوت رانی.

مجامعت جنسی کی طبعی غرض وغایت یہ ہے کہ انسان اپنی نسل برقرار رکھے اوراپنی جنس کو ترقی دے.اس فعل کی طرف رغبت دلانے کے لیے ایک خاص لذت بھی پیدا کر دی گئ.

اگر قدرت نے یہ پر کیف لذت اور سرورآگین جوش اس وظیفہ ازدواجی میں مضمر نہ کیا ہوتا,تو یہ وظیفہ اس طرح انجام پاتاجس طرح ایک غیر خوش دل مزدور سے جبراً مزدوری کا کام لیا جائے. ایک نارضامند بیگاری سے جبراً بیگار لی جائے یا ایک غیر مزہبی شخص سے بادل نخواستہ مزہبی رسوم ادا کرائی جائیں.


لیکن آج اس کے برعکس لوگوں نے اس کو اوڑھنا اور بچھونا ہی بنا لیا ہے جیسے خوراک کی طرف دیکھیں تو انسان کو اتنا ہی کھانا چاہیے جس سے اس کی کمر سیدھی رہے لیکن آج%90 امراض زیادہ تر بسیار خوری سے ہی ہیں اسی طرح یہ شہوت رانی کا مسئلہ ہے بس لوگ اندھا دھند اپنے مادہ حیات کو کچی عمر سے لے کر جب تک اخیر نہ ہو جائے بس نہیں کرتے اور اسی طرح انسان بیماریوں کی آماج گاہ ہی بن کے رہ جاتا ہے.

قابل غور باتوں میں ایک یہ بھی ہےکہ پیشہ ور لوگوں نے بجائےاصلاح ,احساس,صلہ رحمی,اللہ کا خوف,لوگوں کو انکی اس کمزوری پر لوٹنا شروع کر دیا یہ اسی طرح ہے کہ کسی مرتے ہوئے آدمی کے ہاتھ سے گھڑی اتارنا اور وہ سسکتا ہوا بے بسی سے اپنے کانپتے ہونٹوں سے کہے کہ بھائی ابھی تو میں زندہ ہوں.

پہلے کبھی جوانیاں برباد ہوا کرتیں تھیں لیکن آج کا المیہ یہ ہے کہ اب وہی بات بچپن میں آگئ ہے.کچھ دوست اس بات پر نالاں ہیں کہ کوئ اور بات محو گفتگو کریں لیکن وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بے حیائ شیطان کا سب سے بڑا ہتھکنڈا ہے.اس سے صحت تو صحت خاندانوں کے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں.

اسی لیے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیا ایمان کی شاخ ہے.

اور دوسری جگہ فرمایا جس میں حیا نہیں وہ جو چاہے مرضی کرے.

اور یہ آج کی بے راہ روی معاشرے کی تباہی اور اس کے بعد بے حیائ ,اور بے سکونی ہی کا نتیجہ ہے.

 

Comments

Popular posts from this blog

بڑی انت جی صفائی

Blood test

Need man